کم کھاؤ غم نہ کھاؤ
حلال کھاؤ حرام نہ کھاؤ
جو میں نے دیکھا سنا اور سمجھا
زیادہ کھانے والے کی مشکلات
میرے ایک دیرینہ اور ابتدائی محسن تجمل الٰہی شمسی مرحوم کی بات مجھے شاید پتھر پر لکیر کی طرح کبھی نہ بھول سکی‘ ان کا قول ہے اور بڑوں بوڑھوں سے انہوں نے سنا اور میں گمان نہیں سچا خیال رکھتا ہوں‘ ساری زندگی انہوں نے خود اس پر عمل کرکے بھی دکھایا کیونکہ میرا تقریباً بیس سال ان سے واسطہ اور رابطہ رہا اور یہ کوئی تھوڑا عرصہ نہیں‘ ان کا قول ہے’’کم کھاؤ غم نہ کھاؤ۔ حلال کھاؤ حرام نہ کھاؤ‘‘ یقین جانیے! میں نے زندگی میں زیادہ کھانے والے کو تکالیف‘ مشکلات‘ مسائل اور پریشانیوں میں مبتلا دیکھا ہے اور کبھی سکھی نہیں دیکھا‘ ان کی عمریں تھوڑی‘ ان کے گھٹنے ختم‘ ان کے اعصاب بے کار‘ ان کے بستر کی زندگی یا دفتر کی زندگی‘ مِل‘ کاروبار یا دکان ہر شعبہ میں وہ ناکام اور پریشان ہیں‘ بے دریغ کھانا‘ بہت زیادہ کھانا اور کھانے کو زندگی کا حصہ بنایا اور کھاتے ہی چلے جانا‘ یہ زندگی کا ایک بہت بڑا نچوڑ ہے کہ کبھی احتیاط سے چلو اور احتیاط ہی ساری کائنات کا راز ہے اور اگلا راز جو شمسی صاحب مرحوم نے بیان کیا’’حلال کھاؤ حرام نہ کھاؤ‘‘ اس چھوٹے سے فقرے پر تو حد کردی ہے۔
آج تک کوئی میرے شکنجے اور جال سے نہ نکل سکا مگر۔۔۔
اک آخری درجے کابدمعاش مجھے لفظ’ بدمعاش‘ لکھتے ہوئے جھجک سی محسوس ہورہی ہے لیکن اس شخص کا تعارف ان الفاظ کے بغیر مجھے کچھ مل نہیں رہا۔ کہنے لگا: میں نے آج تک جس کو بھی گھیرا ہے‘ کوئی میرے شکنجے اور جال سے نکل نہیں سکا‘ وہ مرد ہو یا عورت آج تک کوئی بندہ میرے شیطانی جال سے نہیں نکل سکا لیکن ایک شخص میرے شیطانی جال سے نکل گیا‘ میں یونیورسٹی میں پڑھتا تھا اور وہ بھی یونیورسٹی میں پڑھتا تھا‘ پھرمیں نے بہت زیادہ تحقیق کی‘ سوچا کہ وہ میرا شکار میرے ہاتھ سے کیوں نکل گیا؟ میں نے اسے اپنی لذت اور تنہائی کا حصہ بنانا تھا‘ بہت عرصہ میں پریشان رہا کیونکہ وہ میری انا اور شیطانیت کا سوال تھا اورلوگ مجھ پر مذاق کرتے تھے تو کہتا ہے کہ میرا کوئی شکار میرے ہاتھ سے نہیں نکلا لیکن وہ کیوں نکل گیا؟
حلال کو کبھی حرام چھو نہیں سکتا
آخرکار میں نے اس پر تگ و دو کی انتہا کردی‘ پتہ چلا جس گھرانے کا وہ فرد ہے اس گھرانے میں رزق حلال آتا ہے اور سختی سے وہ رزق حلال کا اہتمام کرتےہیں‘ ان کے دادا پاکستان کے بہت بڑے آدمی تھے اور ان کا ایک نام تھا‘ وہ رزق حلال کے بارے میں اتنے محتاط تھے کہ ان کی مثالیں موجود ہیں لیکن وہ رزق حلال کو کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھےا ور رزق حرام کو کبھی چھوتے نہیں۔ اس بدمعاش کا جو شکار تھا اس کی رگوں میں حلال رزق دوڑ رہا تھا‘ اس نے لاکھ کوشش کی لیکن حلال کو کبھی حرام چھو نہیں سکتا اور حرام ہمیشہ آپس میں ملتا ہے۔ قارئین! میرے پاس ایک نہیں سینکڑوں نہیں‘ بے شمار واقعات ہیں اور میں جب ایسے واقعات کے رزلٹ اور نتائج دیکھتا ہوں‘ اش اش کر اٹھتا ہوں اور شمسی صاحب کی روح کو فوراً اعمال کا ہدیہ کرتا ہوں کہ کیا کمال کی بات کرگئے۔ آج سالہا سال ہوگئے ہیں وہ بات میرے دل اور جگر میں ایسی اتری کہ کبھی فراموش نہ ہوسکی۔
زندگی میں حرام کا نہ سوچیے! نسلیں محفوظ رہیں گی
آئیے! سب سے پہلے اپنے دسترخوان پر پہلوان بنیں‘ کھانے کے نہیں پہلوان وہ ہے جس کا ہاتھ رک جائے کتنا پرتکلف لذیذ دسترخوان ہے لیکن میرا ہاتھ وہیں رک جائے اور اسی طرح رزق حلال کمانا ہے اور اس کی بھرپور کوشش کرنی ہے‘ چاہے وہ نوکری پیشہ ہے‘ تاجر ہو‘ زمیندار ہو‘ اپنی زندگی میں حرام کو شامل کرنے کا سوچنا نہیں‘ یقین جانیے! نسلوں کی عزتیں اور عصمتیں جہاں بچی رہیں گی‘ وہاں قدرت نسلوں کے لیے رزق غیبی کا انتظام کردے گی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں